دیہات میں دودھ پلانے کی حکمت
The wisdom of breastfeeding in the countryside
شہر میں رہنے والی عربوں کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلوانے کے لئے دیہات میں بھیج دیتے تھے تاکہ وہ شہری بیماریوں سے محفوظ رہے،ان کے جسم مضبوط ہو جائے آئے اور وہ بچپن ہی سے اپنے آپ پر اعتماد کرنے کے عادی ہو جائے۔ماؤں، نانیوں ،دادیوں اور دوسرے رشتے داروں کے لاڈ پیار سے بچے رہیں۔ اور ان کی زبان لہجے کی خرابیوں اور غلطیوں سے محفوظ رہے ۔
The Arabs living in the city used to send their children to the villages for breastfeeding so that they would be protected from urban diseases, their bodies would become strong and they would be accustomed to self-confidence from childhood. Avoid the pampering of mothers, grandmothers, grandmothers and other relatives. And their language is safe from accents and mistakes
باد یہ بنی سعد میں رضاعت اور واقیہ شق صدر
This is breastfeeding in Bani Saad and the real clause is Sadr
بنو سعد کے علاقے میں پرورش کے دوران ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔حافظ ابن کثیر نے ابو نعیم کی روایت سے اس کی صراحت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یوں کی ہے : " میری پرورش کرنے والی رضاعی ماں بنو سعد بن بکر سے تھیں۔ایک دفعہ میں اور میرا رضاعی بھائی بکریاں لے گئے لیکن کھانے پینے کی کوئی چیز ساتھ لے کر نہ گئے میں نے کہا : " بھائی ! تم جاؤ اور امی جان سے کھانے پینے کی کوئی چیز لے آؤ۔ "۔ میرا بھائی چلا گیا۔میں بکریوں کے پاس ٹھہرا رہا۔ اچانک دو سفید پرندے اڑتے نظر آئے۔ان کی شکل گدھ جیسی تھی ۔ وہ سیدھے میری طرف آئے۔ایک دوسرے سے کہا :۔ " کیا یہ وہی ہے " ؟ " دوسرے نے کہا : " ہاں " انہوں نے مجھے پکڑا اور چت لٹا دیا ، پھر میرا پیٹ چیرا اور دل نکالا،اسے بھی چیرا دیا اور سیاہ رنگ کے دو ٹکڑے نکال کر پھینک دیے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے : "برف کا پانی لاؤ " ۔ وہ پانی لایا تو انہوں نے اسے میرا پیٹ دھویا۔ پھر ایک نے کہا : " اولوں کا پانی لاؤ " ۔ پھر انہوں نے اس پانی سے میرا دل دھویا، پھر اس نے کہا : " سکینت لاؤ " اور اسے میرے دل میں چھڑک دیا ، پھر ایک نے دوسرے سے کہا : "ا سے سی دو " ۔ اس نے میرا پیٹ سی دیا اور میرے دل پر مہر نبوت لگا دیں، پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا : " اسے ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالو دوسرے پڑھنے میں اس کی امت کے ایک ہزار افراد ڈالو " ۔ مجھے وہ ہزار والا پلڑا اتنا اونچا نظر آتا تھا کہ مجھے خطرہ ہوا مبادا وہ مجھ پر گر پڑیں ۔ وہ کہنے لگا : " اگر تم ساری امت کو بھی اس کے برابر تو لو گے تو یہ سب سے وزنی ثابت ہوگا " ۔ پھر وہ مجھے چھوڑ کر چل دیئے۔میں سخت گھبرا گیا اور اپنی امی کے پاس پہنچا۔انہیں سارا واقعہ سنا یا۔وہ گھبرا گئی مبادا یہ کوئی شیطانی کاروائی ہو۔ کہنے لگیں : " میں تجھے اللہ تعالی کی پناہ میں دیتی ہوں " ۔ پھر انہوں نے اونٹ پر پالان کسا ،مجھے اپنی گود میں پالان پر بٹھایا اور ہم چل دیے حتی کے ہم اپنی حقیقی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔ میری رضاعی ماں کہنے لگی : " لیجئے اپنی امانت۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ۔" پھر انہوں نے مجھ پر بیتنے والا سارا واقعہ سنایا۔ لیکن میری والدہ مطلق پریشان نہ ہویںں بلکہ کہنے لگیں : " جب یہ میرے پیٹ میں تھا تو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مجھ سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے محل چمک اٹھے "
While growing up in the area of Banu Sa'd, there was an incident of the President of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him). The foster mother who raised her was from Banu Sa'd bin Bakr. Once my foster brother and I took the goats but did not take anything with them to eat. I said: "Brother! You go and get something to eat from mother ".
My brother left. I stayed with the goats. Suddenly two white birds were seen flying. They looked like vultures. They came straight to me. They said to each other: "Is that it?" The other said, "Yes." They grabbed me and laid me down.
Then he cut my stomach and heart, cut it too and took out two black pieces and threw them away. Then they said to each other: "Bring ice water." He brought water and they washed my stomach. Then one said: "Bring hail water." Then he washed my heart with this water, then he said: "Bring peace" and sprinkled it in my heart, then one said to the other: "Give it to me".He sealed my stomach and sealed my heart with prophethood, then said to each other: "Put him on one scale, put a thousand people of his ummah in the other reading." I could see the thousand-foot scale so high that I was in danger of falling on me. He said: "If you take the whole Ummah equal to it, it will prove to be the heaviest." Then they left me.Then he left me and left. I got very nervous and went to my mother. She heard the whole incident. She said: "I give you refuge in Allah Almighty." Then he tied the palan on the camel, put me on his lap and we left until we reached our real mother.
My foster mother said: "Take your trust. I have fulfilled my responsibility." Then they told me the whole story. But my mother was not upset at all, but said: "When it was in my womb, I dreamed that a light came out of me which made the evening palace shine."
امام مسلم یہ واقعہ اختصار سے نقل کیا ہے ۔انہوں نے اس واقعے کا ماخذ بھی نہیں بتایا ۔یہ واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے صحیح مسلم میں اس طرح ہے : " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آے ۔اس وقت آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔انہوں نے آپ کو پکڑا اور زمین پر لٹایا۔ پھر سینہ چاک کرکے آپ کا دل نکالا۔دل چیر کر اس میں سے ایک ٹکڑا نکالا۔ اور کہا : " یہ رہا شیطان کا حصہ "پھر دل کو سونے کے ایک تھال میں رکھ کر زم زم کے پانی میں دھویا ،پھر اسے سی کر اس کی اصل جگہ میں رکھ دیا ۔دوسرے بچے بھاگتے ہوے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی ماں کے پاس گئے۔ اور شور مچانے لگے۔ کہ " محمد کو قتل کردیا گیا" گھر والے بھاگتے ہوئے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ آپ کا رنگ اڑا ہوا تھا ۔ حضرت انس نے فرمایا : " میں سلائی کے نشانات آپ کے سینے مبارک پر دیکھا کرتا تھا" ۔
Imam Muslim has narrated this incident in brief. He did not give the source of this incident either. This incident is narrated in Sahih Muslim with reference to Hazrat Anas (RA) as follows: Gabriel (peace be upon him) came. At that time you were playing with the children. They grabbed you and laid you on the ground. Then they tore your chest and took out your heart. Part of the devil "
Then he put the heart in a gold plate and washed it in Zamzam water, then sealed it and put it in its original place. The other children ran to the foster mother of the Prophet (peace be upon him). And began to make noise. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) saw them coming from the front. Your color was blown. Hazrat Anas said: "I used to see the sewing marks on your blessed chest."
کچھ کتابوں میں یہ تعین نہیں کیا گیا کہ اس واقعے کے وقت آپ کی عمر کتنی تھی۔بعض حضرات نے تحدید کی ہے مگر کسی معین امر پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ابن اسحاخ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر 2 سال سے کچھ اوپر تھی کیونکہ حضرت حلیمہ کہتی ہیں : " ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دو سال کی عمر کو پہنچا تھا کہ اس کا جسم لڑکوں کی طرح تنومند ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔،اللہ کی قسم !(اسے اس کی ماں کے ہاں سے دوبارہ لانے کے ) چند ماہ بعد ہی کی بات ہے کہ وہ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ ہمارے گھروں کے پچھواڑے ہماری بکریوں کے پاس تھا۔۔۔۔۔" ۔ لیکن ابن سعد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پیش آنے پر آپ کی عمر چار سال تھی۔ ابو نعیم نے بھی یہی بات کہی ہے،البتہ ان کی سند ضعیف ہے۔دیگر سیرت نگاروں نے اسے پانچویں سال بلکہ اس سے بھی بعد کا واقعہ بتایا ہے۔
In some books, it has not been determined how old you were at the time of this incident. Some gentlemen have limited it but could not agree on any specific matter. She was a little over a year old because Hazrat Halima says: "Muhammad (peace be upon him) had just reached the age of two years when his body was as strong as a boy's ... by Allah!" It was only a few months after he was brought back from his mother that he was with his foster brother in the backyard of our house with our goats ... " ۔ But According to the narration of Ibn Sa'd, he was four years old at the time of this incident. Abu Naeem has also said the same thing, but his credentials are weak. Other biographers have described it as the event of the fifth year or even later.
ہم زرقانی کی بات سے متفق ہیں اور ابن سعد کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ چار سال کی عمر کا واقعہ ہےکیونکہ کم از کم اسی عمر میں بکریاں چرانے کا کام کیا جا سکتا ہے اور ارد گرد کے واقعات کو سمجھا جاسکتا ہے ۔
We agree with Zarqani and prefer the narration of Ibn Sa'd that this is an incident of four years of age because at least at that age the work of grazing goats can be done and the surrounding events can be understood.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ شق صدر کا واقعہ پیش آیا ۔ امام احمد کی روایت کے مطابق شق صدر کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کی عمر دس سال سے چند ماہ اوپر تھی۔ صحیح بخاری،صحیح مسلم وغیرہ کی صحیح روایات میں ہے کہ شق صدر کا واقعہ اس وقت میں پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچاس سال سے تجاوز کر چکی تھی جب کہ آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ امام ذہبی نے ایسی روایات بیان کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شق صدر دو دفعہ ہوا ۔ بچپن میں اور میراج کے وقت ۔بعض مورخین نے اس واقعے کا صدر چوتھی مرتبہ بھی بیان کیا ہے ۔
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) also had the incident of Shaq Sadr several times. According to the narration of Imam Ahmad, the incident of Shaq Sadr took place when he was a few months older than ten years. According to the authentic traditions of Sahih Bukhari, Sahih Muslim, etc., the incident of Shaq Sadr took place when the Holy Prophet (sws) was over fifty years old when he was taken to Jerusalem. Imam Dhahabi has narrated such traditions which show that Shaq Sadr happened twice. In childhood and at the time of Mirage. Some historians have mentioned this incident for the fourth time.
Some minority Orientalists and Muslim historians in awe of them have interpreted the incident of Shaq Sadr as a spiritual thing and had nothing to do with reality. Others have turned it into a front story.
اقلیت پرست مستشرقین اور ان سے مرعوب مسلمان مورخین نے شق صدر کے واقعے کی تاویل کی ہے کہ یہ معنوی چیز تھی اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔بعذ نے تو اسے محاذ ایک کہانی کر دیا ہے
Minority Orientalists and Muslim historians intimidated by them have interpreted the Shaq Sadr incident as a spiritual thing and had nothing to do with reality. Others have turned it into a front story.
واقعہ شق صدر کے سلسلے میں خوبصورت اور مختصر ترین بات حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کی ہے، لکھتے ہیں : " سینہ چیرنے ، دل کے نکالنے اور دوسرے خرق عادت واقعات کے بارے میں جو تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ ان کو حقیقت واقعی تسلیم کرنا ضروری ہے۔ان کے دور از کار تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں نہیں کیونکہ معجزات اللہ تعالی کی قدرت کے تحت ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔اور مافوق الفطرت معجزے کا ظاہر کرنا اللہ تعالی کے لیے محال نہیں ہے ".
"۔ Hafiz Ibn Hajar (may Allah have mercy on him) has written the most beautiful and short story about the incident of Shaq Sadr. He writes: It is necessary to do so. There is no need for their remote interpretations because miracles appear under the power of Allah Almighty. And it is not impossible for Allah Almighty to perform supernatural miracles"
۔ ہر مسلمان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی روایت کی قبولیت کا معیار اس کا صحیح سند کے ساتھ ثبوت ہے۔ اگر کوئی واقعہ صحیح سند سے ثابت ہے تو اس کی غیر حقیقی تاویل کا کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ عقلیت پرست مستشرقین حقائق کا انکار کرکے ان کی قبیح عقلی تاویلیں کرتے ہیں۔
Every Muslim should know that the standard of acceptance of a tradition is the proof of it with a valid certificate. If an event is proved by a valid document, then its unrealistic interpretation is of no use, as rationalist Orientalists deny the facts and make ugly rational interpretations of them.
شق صدر اور بچپن میں بکریاں چرانے کی حکمت
یہ واقعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اظہار تھا اور اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن ہی سے معصوم بنانا اور وحی کا بار اٹھانے کے لیے تیار کرنا تھا۔ اسے مادی صورت میں اس لئے ظاہر کیا گیا کہ لوگوں کے لئے آپ پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرنا آسان ہو جائے اور اللہ تعالی کا یہ اعلان لوگوں کی آنکھوں اور کانوں تک پہنچ جائے۔
This event was an expression of the Prophet Muhammad's mission and was intended to make him infallible from an early age and to prepare him to carry the burden of revelation. It was revealed in a material form so that it would be easy for people to believe in you and to confirm the message of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) and this proclamation of Allaah would reach the eyes and ears of the people.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے وحی کا بار اٹھانے کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) was being prepared by Allaah to carry the burden of revelation.
اللہ تعالی نے ذمہ داری اٹھائی کہ وہ اپنے رسول کو انسان کے طبیعی اغلاط سے پاک کرے گا اور شیطان کی ریشہ دوانیوں سے اس کی حفاظت کرے گا۔واقعہ شق صدر کا ایک مقصد اس ذمہ داری اور عہد کا اظہار بھی تھا۔۔
Allah Almighty took the responsibility that He would purify His Messenger from the natural ailments of man and protect him from the Devil's fiber.
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بسند حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
Imam Bukhari (may Allah have mercy on him) narrated from Hazrat Abu Hurayrah (may Allah be pleased with him) that the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said:
"
جو بھی نبی ہو گزرا ہے اس نے بکریاں چرائی ہیں " صحابہ کرام نے پوچھا : جناب رسول اللہ ! آپ نے بھی ؟ فرمایا : ہاں! میں اجرت لے کر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا"۔
Every prophet who has passed away has stolen goats. The Companions asked: O Messenger of Allah! You too? He said: Yes! I used to graze the goats of the people of Makkah for a fee.
صحیح بخاری صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائیں ہیں۔
Sahih Bukhari Sahih Muslim narrates from Hazrat Jabir that the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) used to graze goats
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : "اہل علم نے کہا ہے کہ نبوت سے قبل انبیاء کرام کے دلوں نے بکریاں چرانے کا شوق پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بکریاں چرانے سے ان کو اپنی امت کو سدھارنے کا فریضہ انجام دینے کی مشق ہو جائے کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس سے ان میں حلم و شفقت کے جذبات پیدا ہوں گے ۔بکریاں چرانے میں مرا صبر کرنا پڑتا ہے، مثلا : ان کو چرانا،چراگاہ میں ان کے ادھر ادھر بکھر جانے کے بعد ان کو اکھٹا کرنا،ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ میں لے جانا ،درندوں اور چوروں سے ان کی حفاظت کرنا،ان کے مختلف طبیعتوں کو سمجھنا ،ان کا گھڑی گھڑی بکھر جانا ،ان کی فطری کمزوری کی بنا پر ان کا بہت خیال رکھنا، یہ سب ایسے کام ہے کہ ان کی وجہ سے انبیاء علیہ السلام کو اپنی امت کی تربیت اور رہنمائی کے معاملے میں صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے
Hafiz Ibn Hajar (may Allah have mercy on him) writes: “Scholars have said that the wisdom of instilling in the hearts of the Prophets the desire to graze goats before the Prophethood is that by grazing goats they practice their duty of reforming their ummah. This is because it is a work that will create feelings of compassion in them. In grazing goats, one has to be patient, for example, to graze them, to gather them after they are scattered in the pasture. Moving from one pasture to another Protecting them from beasts and thieves, understanding their different natures, breaking them from time to time, taking great care of them due to their natural weakness, these are all things that cause the Prophets to It becomes easier to be patient in training and guiding one's ummah
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنی ہی زبان مبارک سے بکریاں چرانے کا تذکرہ کرنا اس حقیقت کی بڑی مستند پہچان ہے کہ آپ انتہائی متواضع اور احسان شناس شخصیت تھے ۔اللہ تعالی نے آپ کو تمام انسانوں میں سب سے بڑھ کر معظم مشرف بنایا تھا لیکن پھر بھی آپ کی ذات گرامی میں بے حد انکسار تھا " ۔
The mention of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) grazing goats with his own blessed tongue is a very authentic recognition of the fact that he was a very humble and benevolent person. Allaah made him the greatest of all human beings. But still your caste was very humble.
آپ کے بکریاں چرانے سے ہمیں آپ کے ذوق سلیم اور احساس ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے جن سے اللہ تعالی نے آپ کو متصف فرمایا تھا کہ جونہی آپ کو اندازہ ہوا کہ میں کچھ کام کرنے کے قابل ہو گیا ہوں ، آپ نے اپنے چچا محترم سے ان کا بوجھ بٹانے کے لیے خود کام کاج کرنا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا محترم عیالدار شخص تھے ،تاہم انہوں نے آپ صلی اللہ وسلم کے لیے زندگی کے بہترین وسائل مہیا کر رکھے تھے
Grazing your goats gives us an idea of your good taste and sense of responsibility which Allah Almighty had characterized you. As soon as you realized that I was able to do something, you respected your uncle. Began to work on his own to relieve their burden. The uncle of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) was a respected man, but he provided him with the best means of subsistence.
اللہ تعالی کے لیے ہرگز مشکل نہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ وسلم کے لئے راحت بخش زندگی بسر کرنے کے تمام وسائل خود مہیا کر دیتا اور آپ کو روزی کی دوڑ دھوپ اور محنت و مشقت سے بے نیاز کر دیتا مگر اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ انسان کا بہترین مال وہ ہے جو اپنی محنت و مشقت سے کمائے اور مفید انسان وہ ہے جو اپنی طاقت اور بساط کے مطابق معاشرے کو اپنی خدمات سے فیضیاب کرے ۔ اسی سے انسان کی شان و شوکت قایم ہوتی ہے ۔۔۔
It was not difficult for Allah Almighty to provide you with all the means to live a comfortable life and to make you free from the pursuit of sustenance and hard work, but the wisdom of Allah Almighty. The requirement was that people should know that the best wealth of man is that which he earns by his hard work and the useful man is the one who, according to his strength and ability, will benefit the society with his services. This is how the glory of man is established.
دعوت اور تبلیغ کو تحریک کا کام کرنے والے اس وقت تک اپنا وقار قائم نہیں رکھ سکتے جب تک اپنی روزی خود نہ کمائیں۔ اگر ان کا گزارا لوگوں کی عطایات و صدقات اور خیرات پر ہوگا تو وہ لوگوں کے نزدیک بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے ۔اسی لیے ہر صاحب دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی معشیت کے سلسلے میں وہ اپنی ذات اور محنت پر اعتماد رکھے اور مانگنے سے پرہیز کرے تا کہ دنیوی طور پر کسی شخص کا اس پر کوئی احسان نہ ہو اور وہ اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ پوری قوت اور بے باکی سے ادا کر سکے۔
Those who work for the cause of Da'wah and preaching cannot maintain their dignity unless they earn their own living. If their livelihood is based on the donations and alms of the people, then they will be worthless in the eyes of the people. He should refrain from begging so that no one in the world will be kind to him and he may perform the duty of exalting the word of God with full force and sincerity.
اس کو ثواب جاریہ کے طور پر پھیلائیں
Spread it out as a reward
Share And subscribe
Seerat e Nabwi
تالیف : دکتور مہدی رزق اللہ احمد
ترجمہ : شیخ ا احدیث حافظ محمد امین
نظر ثانی و رجمہ حو اشی : حافظ قمر حسن
Written by
Islamic world
Aye allha agar mere likhne me koi zabar zer ki bhi galati ho to mujhe ma'af farma.....ameen
If u ask any questions about this ..... contact me on shazcreations66.blogspot.com
Comments
Post a Comment